سیرتِ نبوی کی عصری اہمیت

 


علوم و فنون کی صف میں سیرت (Biography) کا ایک خاص درجہ ہے۔ ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی کی سوانح حیات بھی حقیقت شناسی، عبرت پذیری اور تدبیر منزل کے لیے دلیل راہ ہوتی ہے۔ چہ جائیکہ وہ ایک تاریخ ساز، ایک انسان ساز، ایک قائد تمدن اور ایک عظیم انسان یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک ہو۔ 
جو صرف ایک فرد کی داستان نہیں بلکہ ایک تاریخی طاقت کی داستان ہے۔ جس کے زندہ اوراق میں ابوبکر و عمر، عثمان و علی، سعد و معاذ، خالد و خویلد، خدیجہ و عائشہ، حسن و حسین اور اس کے علاوہ دیگر ان مایہ ناز ہستیوں کا بھی تذکرہ شامل ہے جنہوں نے اپنا پورا سرمایۂ حیات اصول و مقاصد کی جنگ لڑنے اور امن و مسرت کی ارضی جنت تعمیر کرنے میں کھپا دیا۔

موضوع سیرت 

سیرت نبوی کی وسعت وہمہ گیری کو بیان کرنے کے لیے صفحات کے صفحات درکار ہیں۔ مختلف سیرت نگاروں نے اس کی الگ الگ تعریفات پیش کی ہیں، لیکن مختصراً اس کو جدید اسلامی اسکالر ڈاکٹر محمود احمد غازی کی زبانی اس طرح سمجھا جاسکتا ہے۔ "سیرت کے لغوی معنی تو 'طریقۂ کار' یا 'چلنے کی رفتار اور انداز' کے ہیں۔ عربی زبان میں فعلہ کے وزن پر جو مصدر آتا ہے، اس کے معنی کسی کام کا طریقہ یا کسی کام کو اختیار کرنے کے انداز اور اسلوب کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ سیرت کے لفظی معنی بھی چلنے کا طریقہ کے ہیں۔ اسی معنی کی توسیع کے طور پر عربی زبان میں سیرت کے معنی کسی کی طرز زندگی (Life Style) یا زندگی گزارنے کا اسلوب بھی ہیں۔ جلد ہی سیرت کا لفظ ذات رسالت مآب ﷺ کے ساتھ قریب قریب مخصوص ہو گیا، اور آج دنیا کی تمام مسلم زبانوں اور بہت سی غیر مسلم زبانوں میں بھی سیرت کا لفظ سرکار دو عالم کی مبارک زندگی کے لئے استعمال ہوتا ہے"۔ سیرت کے لامتناہی اور متلاطم سمندر کی وسعت کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "علم سیرت ایک وسیع کینوس رکھتا ہے، اس وسیع کینوس کی وضاحت کے لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ پورے اسلامی تمدن اور تاریخ کے مرحلۂ آغاز اور رسول اللہ کے پورے پیغمبرانہ کیریئر کا ایک لینڈ اسکیپ۔ اس لینڈ اسکیپ میں وہ سب کچھ شامل ہے جس کا اسلام اور رسول اللہ کی سیرت مبارکہ سے کوئی تعلق ہو"۔ (1) اردو زبان کے مشہور اہل قلم جناب نعیم صدیقی صاحب اس کی جامعیت و آفاقیت کو آگے بڑھاتے ہوئے"محسن انسانیت" کے مقدمہ میں لکھتے ہیں۔ "حضور کی زندگی ایک بین الانسانی مشن کی داستان ہے۔ وہ اس مقدس پیغام کی تکمیل ہے جس کی مشعل آدم، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور جملہ انبیاء علیہم السلام اپنے اپنے دور میں روشن کرتے رہے ہیں"۔ (2) 

مطالعۂ سیرت کیا ایک ضرورت ہے؟ 

 ہر سنجیدہ اور ذاتی غور و فکر کے حامل شخص کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ آخر رسول اسلام کی سیرت کا بھی مطالعہ کیوں کیا جائے جبکہ آپ کو گزرے ہوئے ساڑھے چودہ صدیاں بیت گئیں۔ علوم و فنون، تمدن و ثقافت سب کچھ اس دور نبوی کی معراج سے بہت آگے بڑھ چکا۔ اس ترقی یافتہ دنیا میں کیا کچھ کم ہے جو اس نبی امی ﷺ کی سیرت کے ذریعے کمال تک پہنچ سکتی ہے۔ ایک طرف یہ سوال ہے تو دوسری طرف یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ آج بھی "تمام عالم کو اس وجود مقدس کی سوانح عمری کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت صرف اسلامی یا مذہبی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ ایک علمی ضرورت ہے۔ ایک اخلاقی ضرورت ہے۔ ایک تمدنی ضرورت ہے۔ ایک ادبی ضرورت ہے اور مختصر یہ کہ مجموعۂ ضروریات دینی ودنیوی ہے"۔ (3)
ذیل میں ہم انہیں مجموعۂ ضروریات دینی و دنیوی کو مختصراً بیان کرتے ہیں جس سے سیرت نبوی کی عصری معنویت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے:

مطالعۂ سیرت کی ضرورت مسلمانوں کے لئے کیوں؟

اس پر شاید زیادہ بات کرنے کی ضرورت نہ ہو۔ ایک مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو قانون اور شریعت کا مآخذ سمجھتا ہے اور یہ مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے کہ رسول اللہ کی اطاعت و محبت ہی میں نجات ہے ۔وإن تطيعوه تهتدوا۔ چنانچہ اس سلسلے میں علمائے سلف کے بہت سارے اقوال ملتے ہیں۔ علامہ ابن قیم جوزی نے "مقدمہ زاد المعاد" میں لکھا ہے کہ: "سیرت کا علم حاصل کرنا ہر مسلمان کے لئے فرض ہے اس لئے کہ سعادتِ دارین آپﷺ کی لائی ہوئی ہدایت پر مبنی ہے۔ لہذا ہر وہ شخص جو اس سعادت کا طالب ہے، وہ آپ ﷺ کی سیرت اور آپ کے معاملات سے آگاہی حاصل کرنے کا پابند اور مکلف ہے"۔ (4) 
ابن الجوزی کہتے ہیں: میں نے دیکھا کہ فقہ میں مشغول رہنا اور تقریروں کا سننا دل کی اصلاح کے لیے کافی نہیں، جب تک کہ اس کے لئے علم و حکمت اور اسلاف کی سیرت کے مطالعہ کو لازم نہ کیا جائے اور ہمارے نزدیک سب سے بہترین سیرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم اور ان کے آل اور اصحاب کی سیرت ہے، جن کے متعلق ارشاد ہے: {أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهِ} (الأنعام:90). مزید فرماتے ہیں: "علم کا اصل الأصول اور سب سے مفید طریقۂ علم رسول اللہ اور ان کے اصحاب کی سیرت کا جائزہ لینا ہے"۔ (5) امام زہری فرماتے تھے: "علم مغازی و سیر ہی دنیا و آخرت کا علم ہے۔" (6)
مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی حسن ندوی لکھتے ہیں: سیرت نبوی مسلمانوں کی قوت ایمانی اور جذبۂ دینی کے مضبوط ترین سرچشموں میں سے ایک ہے۔ امت نے جب تک سیرت نبوی کو حرز جان بناۓ رکھا۔ اس سے ایمانی شمعیں جلتی رہیں۔ حمیت دینی بیدار رہی۔ جیسے ہی اس سے ناطہ توڑا۔ ساڑے جذبے سرد پڑگئے۔ ساری طاقتیں ختم ہوگئیں (7)
بجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے
مسلمان نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے 
شیخ علی طنطاوی اپنی کتاب "رجال من التاريخ" میں لکھتے ہیں۔ "خاندان کے ذمہ دار پر یہ واجب ہے کہ وہ اپنے گھر میں سیرت کی ایک جامع کتاب رکھے۔ اس کو ہمیشہ پڑھے۔ روزانہ اس کے لئے ایک وقت متعین کرے۔ جس میں وہ اپنی اولاد اور افراد خاندان کو اس سے پڑھ کر کچھ سنائے۔ تاکہ وہ ذات نبوی کی محبت و معرفت پر پروان چڑھے۔ کیوں کہ آپ ﷺ کی سیرت اس چشمۂ صافی کے مانند ہے جس میں ہر طالب رشد و ہدایت، متلاشئ صلاح و فلاح کے لئے رہنمائی موجود ہے"۔ (8) محمد أبو شہبہ "السیرۃ النبویۃ علی ضوء القرآن والسنۃ" کے مقدمہ میں لکھتے ہیں"  
"سب سے بہتر موضوع جس کا مسلمان خوب مطالعہ کرتے ہیں، خاص طور پر نوجوان، بحث وتحقیق سے وابستہ افراد اور درس و تدریس کو اپنا شیوہ بنانے والے حضرات وہ  "سیرت نبوی" ہے۔ یہ ایک مجرد موضوع ہی نہیں بلکہ ایک بہترین استاذ اور تہذیب وثقافت، اخلاق و آداب کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ یہ ایک ایسا مکتب ہے جہاں سے مسلمانوں کی ایک ایسی نسل وجود پذیر ہوئی کہ دنیا اس جیسی مثال لانے سے قاصر ہے۔ کیونکہ اس میں ہر وہ چیز موجود ہے جس کا ایک مسلمان اور کمال کا طالب انسان خواہش مند ہوتا ہے۔ دین و دنیا، ایمان و عقیدہ، علم و عمل، آداب و اخلاق، تہذیب و سیاست، امامت و قیادت، عدل و انصاف، شجاعت و بہادری، جہاد، شہادت اور ان جیسی دیگر متعدد متضاد چیزیں حد درجہ کمال کی پائی جاتی ہیں۔" (9)

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

مشہور اشاعتیں