شاعری اور اسلام

                                                     

                                        عبد القادر محبوب      

    صدر اسلام کی شاعری میں جب تک کہ غلامانہ تملق اور خوشامد نے اس میں راہ نہیں پائی، تمام سچے جوش اور ولولے موجود تھے، جو لوگ مدح کے مستحق ہوتے تھے ان کی مدح اور جو ذم کے مستحق ہوتے تھے ان کی مذمت کی جاتی تھی۔ جب کوئی مصنف اور نیک خلیفہ یا وزیر مرجاتا تھا تو اس کے دردناک مرثیے لکھے جاتے تھے اور ظالموں کی مذمت ان کی زندگی میں کی جاتی تھی۔ خلفاء و سلاطین کی مہمات اور فتوحات میں جو بڑے بڑے واقعات پیش آتے تھے ان کا قصائد میں ذکر کیا جاتا تھا۔ احباب کی صحبتیں جو انقلاب روزگار سے برہم ہوجاتی تھیں ان پر دردناک اشعار لکھے جاتے تھے۔ پارسا بیویاں، شوہروں کے اور شوہر، بیویوں کے فراق میں درد انگیز شعر انشاء کرتے تھے، چراگاہوں، چشموں اور وادیوں کی گزشتہ صحبتوں اور *جمگھٹوں* کی ہو بہو تصویر کھینچتے تھے۔ اپنے بچوں کی جدائی اور ان کے دیکھنے کی آرزو حالت غربت میں لکھتے تھے۔ اپنی اور اونٹنیوں کی جفاکشی  اور تیز رفتاری، گھوڑوں کی رفاقت اور وفاداری کا بیان کرتے تھے۔ بڑھاپے کی مصیبتیں، جوانی کے عیش اور بچپن کی بے فکریاں ذکر کرتے تھے۔ اہل وطن کی، دوستوں کی اور ہم عصروں کی سچی تعریفیں اور ان کے مرنے پر مرثیے کہتے تھے۔ اپنی سرگزشت، واقعی تکلیفیں اور خوشیاں بیان کرتے تھے۔ اپنے خاندان اور قبیلے کی شجاعت و سخاوت وغیرہ پر فخر کرتے تھے۔ سفر کی محنتیں اور مشقتیں جو خود ان پر گزرتی تھیں، بیان کرتے تھے۔ عالم سفر کے مقامات اور مواضع، شہر اور قریے، ندیاں اور چشمے سب نام بہ نام اور جو بری  یا بھلی کیفیتیں وہاں پیش آتی تھیں، ان کو موثر طریقے میں ادا کرتے تھے۔ بیوی اور بچوں یا دوستوں سے وداع ہونے کی حالت دکھاتے تھے۔ اسی طرح تمام نیچرل جذبات جو ایک جوشیلے شاعر کے دل میں پیدا ہوسکتے ہیں سب ان کے کلام میں پائے جاتے ہیں، لیکن رفتہ رفتہ دربار کے تملق اور خوشامد نے وہ سرجیون سوتیں بند کردیں اور شعراء کے لیے عام طور پر صرف دو میدان باقی رہ گئے، جن میں وہ اپنے قلم کی جولانیاں دکھا سکتے تھے۔ ایک مدحیہ مضامین جن سے ممدوحین کو خوش کرنا مقصود ہوتا تھا۔ دوسرے عشقیہ مضامین جن سے ان کے نفسانی جذبات کو اشتعالک ہوتی تھی۔ پھر جب ایک مدت کے بعد دونوں مضمونوں میں چچوڑی ہوئی ہڈی کی طرح کچھ مزہ باقی نہ رہا اور سلاطین و امرا کی مجلسیں گرم کرنے کے لیے اور ایندھن کی ضرورت ہوئی تو مطائبات، مضحکات، اہاجی اور ہزلیات کا دفتر کھلا بہت سے شاعروں نے سب چھوڑ چھاڑ کر یہی کوچہ اختیار کرلیا اور رفتہ رفتہ یہ رنگ تمام سوسائٹی پر چڑھ گیا۔ اگرچہ ابتدا سے اخیر تک ہر طبقہ اور ہر عہد کے شعراء میں کم و بیش ایسے واجب التعظیم لوگ بھی پائے جاتے ہیں جن کی شاعری پر مسلمان فخر کرسکتے ہیں، لیکن شارع عام پر زیادہ تر وہی لوگ نظر آتے ہیں جو پچھلوں کے لیے شاعری کا میدان نہایت تنگ کرگئے یا ان کے لیے بہت برے نمونے چھوڑ گئے ہیں۔   

حوالہ : تعمیری ادب (نثر) ص ٤٣

تبصرے

  1. بہت اچھی اور نئے انداز کی کاوش ہے
    قابل مبارکباد ہیں آپ کوشش جاری رہے۔۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

مشہور اشاعتیں