ہندتو انتہا پسندی ،‌مقابل قوتیں اور ناکامیاں

                 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 
ہندتو انتہا پسندی؛ مقابل قوتیں اور ان کی ناکامیاں



مضمون نگار: مرزا ریحان بیگ


اس وقت ہمارے ملک میں میں ایک غالب فکری و سیاسی رجحان وہ ہے جس کی نمائندگی ہندتو (Hindutva) کی تحریک کرتی ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق ہندتو، انتہا پسندانہ ہندو قوم پرستی اور برہمن بالا دستی کا دوسرا نام ہے۔ اگر اس بات کو تسلیم کرلیا جائے تو یہ تقریباً تین ہزار سال پرانی تحریک بن جاتی ہے۔ جس کا جدید روپ انگریزی دورِ استعمار 1915ء میں ہندو مہاسبھا اور پھر کچھ عرصے بعد 1925ء میں آر ایس ایس کی شکل میں قیام پذیر دکھتا ہے۔ دور حاضر میں ہندتو کا مطلب آر ایس ایس یا اس سے وابستہ یا اس کی ہم خیال تنظیموں اور اداروں کے نظام فکر کو سمجھا جاتا ہے۔ ہندوتو کی تحریکیں اپنے آپ کو اسی طرح ایک منظم فکری دھارے کے طور پر پیش کرتی ہیں جس طرح اسلام، عیسائیت، سیکولرزم، کمیونزم وغیرہ ایک دوسرے کے مد مقابل نظر آتے ہیں۔ 
اس کے اہم نظریہ سازوں کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ قدیم ہندو فلسفیانہ خیالات اور روحانی  و مذہبی اعمال پر مشتمل ایک سیاسی نظام کے خواہشمند ہیں۔ چنانچہ ونایک دامودر ساورکر (وفات: 1966) کا یہ انقلابی نعرہ ہی تھا۔ "سیاست کا ہندو کرن اور ہندو قوم کا فوجی کرن" اس کے علاوہ موجودہ وقت میں اس کا اثر و رسوخ 29 جولائی 2020 کو مرکزی کابینہ اور پارلیمنٹ سے منظور نئی قومی تعلیمی پالیسی میں دکھتا ہے۔ جس میں پالیسی  کا اہم موضوع تعلیم کا بھارتی کرن ہے، یعنی یورپ مرکوز مغربی نظام کے بجائے ملک کی مخصوص تہذیب اور اقدار سے ہم آہنگ نظام تعلیم کا فروغ پالیسی کا اہم مقصد ہے۔ اور اس ہندتو کا نظریۂ بھارت (Idea of India) ملک کی بہت چھوٹی سی اقلیت کی نمائندگی کرتا ہے اور آبادی کے بڑے حصے کے عقائد و نظریات تہذیب و اقدار اور ان کی تمناؤں و حوصلوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ اسی وجہ سے اس ہندتو انتہا پسندی کو شروع سے کئی طرح کی مزاحمتوں کا سامنا ہے۔ اس کشمکش میں سر فہرست کانگریس کو دیکھا جاتا ہے۔ کانگریس صرف ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ وہ ایک مکمل تحریک تھی۔ آزادی سے قبل اس کا اصل مقصد انگریزوں سے آزادی اور سوراج کا قیام تھا۔ آزادی کے بعد جمہوری تقاضوں پر "نیشن بلڈنگ" کو اس نے اپنا ہدف قرار دیا۔ لیکن بعد میں اسی سیکولر خیمے میں ایک ایسی جماعت پیدا ہوئی جنہوں نے ہر طرح سے مسلمانوں کا استحصال کیا۔ یہاں کے دیگر مذہبی و تہذیبی طبقات کے حقوق و مفادات کو خاطر میں نہیں لایا۔ انکی منہ بھرائی کا سلسلہ تو جاری رہا لیکن ان کے مذہبی و تہذیبی تشخص تک کو تسلیم نہیں کیا اور بحیثیتِ قوم ان کو ترقی کے مواقع بھی نہیں دیے۔ اس چیز نے ملک کی بڑی آبادی کو کانگریس سے متنفر کیا اور ہندتو کو نفرت کی سیاست کا موقع فراہم کیا۔
اس کے بعد ہندتو انتہا پسندی کے خلاف کمیونسٹ، سماج وادی اور مختلف دلت تحریکات میدان میں دکھتی ہیں۔ اس سلسلے میں حالیہ شائع شدہ کتاب "ہندتو انتہا پسندی نظریاتی کشمکش اور مسلمان" کے مصنف سید سعادت اللہ حسینی صاحب کا تجزیہ نہایت اہم ہے۔ وہ اوپر مذکور تینوں رجحانات کی خوبی و کمی  پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں۔ " دلت تحریکیں، کمیونزم اور سماج واد، یہ تینوں فکری مکاتب ہندتو کی فکری بنیادوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ چیلنج کرنے کی پوزیشن میں تھے۔ ان تینوں تحریکوں کے پاس ہندتو سے مقابلے کے لیے نظریات بھی موجود تھے۔ واضح متبادل وژن  بھی موجود تھا اور پرجوش و حوصلہ مند کیڈر کے ساتھ نہایت فعال تحریکی انفراسٹرکچر بھی دستیاب تھا۔ ان تحریکوں کے پاس وہ تمام مواقع دستیاب تھے جن کے بل پر وہ آسانی سے ہندو کا نظریاتی مقابلہ کرسکتی تھیں۔  لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ اس کی ایک وجہ جو ان تمام تحریکوں میں مشترک ہے وہ وقت کے ساتھ ان کی نظریاتی مداخلت اور اپنے اصولوں کے مقابلے میں وقتی سیاسی مفادات کو ترجیح دینے کا رجحان ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ سیاسی طور پر تو باقی رہے لیکن ان کا نظریاتی وجود گم ہو گیا اور پھر سیاسی وجود بھی گم ہونے میں دیر نہیں لگی"۔
آج ہندتو کے مقابلے کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام نظریاتی تحریکیں سماجی نظریاتی کاموں کو چھوڑ کر محض سیاسی عمل میں مصروف ہونے کو ترک کرے۔ سماجی و نظریاتی محاذ پر پوری اصول پسندی کے ساتھ ڈٹ جائے اور سیاسی قوت حاصل کرنے کی کوشش ضروری ہو تو وہ علیحدہ سیاسی جماعت کے ذریعے ہو جس کی سب سے کامیاب مثال آر ایس ایس نے پیش کی ہے۔

تبصرے

مشہور اشاعتیں