مولانا علی میاں ندوی بحیثیت: ایک داعی

علی میاں ندوی : بحیثیت ایک داعی
اندرون ملک مولانا علی میاں ندوی کی دعوتی کوششیں


قلم کار: مرزا ریحان بیگ 
andaaz.in

حضرت مولانا کی دعوتی کوششوں کا دائرہ اگرچہ بیرون ملک میں بھی کافی وسیع ہے، لیکن آپ کا اصل میدانِ عمل اور دعوت کا مرکز و محور ہندوستان ہی رہا ہے۔ آپ نے ملت اسلامیہ کے درد آشنا بلکہ نبض شناس رہنما کی حیثیت سے ہمیشہ اپنی ذمہ داری محسوس کی اور جب جب ضرورت پڑی انھوں نے ملت کی ڈولتی کشتی کو بھنور سے نکالنے کی کوشش کی۔ مولانا کی ساٹھ سالہ دعوتی زندگی میں اس کی بیسیوں مثالیں ہیں۔ "تقسیم کے بعد ملک کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر مسلمانوں کا مستقبل خطرہ میں نظر آرہا تھا، ملت کے تحفظ و بقاء کے لیے مستقل پلاننگ کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی، اور ناامیدی کی جو ایک عام فضا بن رہی تھی اس کو بدلنے کی ضرورت تھی۔ حضرت مولانا نے اس ضرورت کو شدت کے ساتھ محسوس کیا اور اپنے رفقاء اور معاونین کے مشورے سے ایک مشاورتی اجتماع ضروری سمجھا۔ 26 اگست 1948ء کو لکھنو میں مختلف مکاتب خیال کے دردمندوں کو دعوت دی گئی۔ حضرت مولانا کی سرکردگی میں یہ اجتماع ہوا، جس میں مولانا نے 'نشانِ راہ' کے عنوان سے ایک فکر انگیز اور مؤثر مقالہ پیش فرمایا، جس میں اس وقت مسلمانوں کے مسائل و مشکلات کا تجزیہ بھی تھا اور ان کے روشن مستقبل کے لیے راہ عمل کی تجویز بھی۔ مقالہ خون جگر سے لکھا گیا تھا، اس نے خاص اثر کیا۔ جگر مراد آبادی کی فرمائش پر دوسری نشست میں اس کو دوبارہ سنایا گیا۔ مقالہ میں حضرت مولانا نے اس داعیانہ مزاج پیدا کرنے پر زور دیا ہے جو اولین مسلمانوں کی خصوصیت تھی، اور جس ایمانی دعوت نے ان کے لیے پہاڑوں کو موم کر دیا تھا۔ اُس وقت ملک میں پھیلتی ارتداد کی لہر اور مسلمانوں کی عملی کوتاہی کو دور کرنے کی سب سے متحرک تنظیم "تبلیغی جماعت" تھی۔ آپ نے اپنے دعوتی شوق کی وجہ سے اس کے بانی حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ (1885-1944) سے تعلق قائم کیا اور آہستہ آہستہ تبلیغی کام کے لیے یکسوئی اختیار فرما لی۔ "حضرت مولانا کو اللہ تعالی نے بڑا وسیع ذہن اور گہری نظر عطا فرمائی تھی۔ تبلیغی کام کی افادیت کا ہمیشہ ان کو اعتراف رہا۔ دس پندرہ سال عملی طور پر مولانا اس میں شریک رہے اور ملک و بیرون ملک اس کے لیے طویل طویل دورے فرمائے اور تادم آخر اس کی سرپرستی فرماتے رہے"۔
لیکن بعد میں مولانا نے تبلیغی جماعت کی "حرکت و محنت" کو ناکافی سمجھا جس نے اسلام کے جامع اور عالمگیر پیغام کو چند اعمال کے خانے میں صرف اپنی قوم تک محدود کردیا تھا اور ملک کی اکثریت کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ چنانچہ مولانا نے ایسے اجتماعات منعقد کرانے کی فکر کی جس میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی شریک ہوں تاکہ وہ یہاں کی خداداد دولت (اسلام اور مسلمانوں کی موجودگی) سے فائدہ اٹھائے اور اپنی تقدیر سنوارے۔ "چنانچہ اس طرح کے مخلوط اجتماع کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا اور 9/جنوری 1954 کو گنگا پرشاد میموریل ہال، لکھنؤ میں ایک تقریر کی گئی، جس میں شہر کے سربرآوردہ حضرات اور غیر مسلم تعلیم یافتہ افراد کی خاصی تعداد شریک تھی، اس سلسلہ کی دوسری دو چار تقریریں تبلیغی دورے میں جو مشرقی اضلاع میں ہورہا تھا، جون پور، غازی پور، مئو، (اعظم گڑھ) اور گورکھپور میں کی گئیں" اس طرح الہ آباد میں 1974 کو منعقد ایک جلسے سے اس دعوتی کوشش کو "تحریک پیام انسانیت" کے نام سے جانا جانے لگا۔ یہ تحریک دعوت الی غیر المسلمین اور کنتم خير أمة أخرجت للناس ایک بلند آواز بن گئ۔ اس میں اخلاق اور خدمتِ انسانیت کی زبان میں آسمانی ہدایت کی ضرورت، نبوت کی قدر و قیمت اور اس کی آخری شکل اسلام کی جستجو وغیرہ کو ذہنوں میں راسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کا پورے ملک پر گہرا اثر پڑا اور یہاں کی فضا میں جو تموج اور مزاجوں میں جو اشتعال پسندی اور جذباتیت و سطحیت پیدا ہونے لگی تھی، اس میں فرق پڑا، حالات نارمل ہونے لگے اور لوگوں میں سننے، سمجھنے اور غور کرنے کی صلاحیت پیدا ہوئی۔ مولانا کی یہ ایک ایسی دعوتی کوشش تھی کہ جس میں مولانا کا کوئی ثانی نہیں ملتا۔۔۔ نہ ماضی میں نہ حال میں۔۔۔ نہ معاصرین میں اور نہ متقدمین میں۔ آپ کی اسی کاوش کو سراہتے ہوئے اور اسے ملک وملت کی بقا کا واحد بتاتے ہوئے پروفیسر محسن عثمانی ندوی لکھتے ہیں: سچ یہ ہے کہ صرف ایک حل باقی بچا ہے اور وہ ہے برادران وطن سے ماس کنٹیکٹ(Mass contact) یعنی ہندوؤں سے رابطہ عامہ اور ان کے دلوں کو جیتنا "جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتحِ زمانہ" یہ وہ حل ہے جس کی طرف علماء و قائدین میں سے کسی کی نظر گئ ہے تو صرف مولانا ابوالحسن علی ندوی کی گئی ہے آسمان ملت کا یہ وہ تنہا خورشیدِ درخشاں ہے، جس نے اپنی ضوفشانی سے راستہ دکھایا ہے۔ اگر اس راستہ پر مسلم قوم گامزن نہیں ہوئی تو وہ خون بہے گا کو بیسیوں برساتوں کے بعد بھی بھی خون کے دھبے نہیں دھل سکیں گے اور بے داغ سبزے کی بہار کے لئے آنکھیں ترسیں گی۔ 
یہ تھی آپ کی دعوتی کوشش کا اصل امتیاز جس کا احساس انہیں سیرت کے گہرے مطالعہ سے ہوا۔ آپ نے محسوس کیا کہ قرن اول میں صحابہ کرام اور مشرکین مکہ کے درمیان روابط اور تعلقات موجود تھے۔ لسان قوم بھی ایک تھی۔ سب ایک دوسرے سے شناسا تھے۔ اس لئے دعوت کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی، لیکن ہندوستان میں اس کے برعکس معاملہ دیکھا۔ یہاں وہ سارے تعلقات ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے، جن پر دعوت کی بنیاد ہوتی ہے۔ چنانچہ آپ نے اہل وطن کو مانوس کرنے اور اسلام و مسلمان سے ان کی اجنبیت کو دور کرنے کی سعی پیہم کی۔
اگر یہ سلسلہ جاری رہتا تو یہ نہ صرف اسلام اور مسلمانوں کی ایک عظیم خدمت انجام پاتی بلکہ اس ملک کے بھی سب سے پیچیدہ مسئلہ کے حل ہونے کے امکانات بھی پیدا ہوجاتے۔ لیکن بعض اندیشوں و زیادہ تر اس موضوع پر محتاط و مؤثر تقریر کرنے والوں کی کمیابی اور مولانا کے بیرونی اسفار اور علمی مشاغل نے اس کو جاری رہنے نہیں دیا:
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا 
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے 
آپ کی دعوتی کوششوں کا تسلسل یہیں پر ختم نہیں ہوا بلکہ آپ نے ملک کے متعدد صوبوں و شہروں کا سفر کیا۔ مدارس کے دورے کئے۔ جلسوں کی صدارتیں کی۔ مکاتب و مساجد کے جال بچھائے۔ سب کے پیچھے آپ کی وہی ملی تڑپ اور داعیانہ ذمہ داری کا احساس کار فرما تھا جو آپ نے اپنی وراثت میں پایا تھا۔

تبصرے

مشہور اشاعتیں