خبر : اللقاء الثقافی، لکھنؤ

        Most Beneficiant ٫ Most Merciful

From Editor's Pen 🖋️
   اعتراف اور حوصلہ افزائی سے افراد اور ادارے ترقی کرتے ہیں: مسعود عالم ندوی۔ 

*(طلبہ اور اسکالرز کے لئے تخلیقی و تربیتی سیریز کی چھیالیسویں نشست کا خیر النساء بہتر ہال میں کامیاب انعقاد، شیخ عبداللہ اور حسان عمر انعامات سے سرفراز)*

دارالبحث والاعلام، لکھنؤ کی ہفت روزہ علمی، ادبی، فکری اور تربیتی یونٹ اللقاء الثقافی، لکھنؤ کے زیر اہتمام جامعہ خدیجہ الکبری للبنات ندوہ روڈ، لکھنؤ کے خیر النساء بہتر ہال میں 16/ دسمبر / 2022 مطابق21 جمادی الاولیٰ 1414ھ بروز : جمعہ بوقت : 00: 08 ۔ 00: 09 بجے دن طلبہ اور نوجوان اسکالرز کے لئے ایک نئی تخلیقی سیریز بعنوان : 

میرا انتخاب، میری تخلیق 
میری تخلیق، میرا انتخاب 

کی چھیالیسویں نشست کا آغاز نور القمر ندوی کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا، بعد تلاوت قرآن پاک انتخابات و تخلیقات کا سلسلہ شروع ہوا۔ محمد فرحان ضیاء ( ممبر: اللقاء الثقافی، لکھنؤ نے مشہور سیرت نگار اور محقق علامہ سید سلیمان ندوی کی رثائی تحریروں کا مجموعہ "یاد رفتگاں " سے نہایت مؤثر اور چشم کشا اقتباسات پیش کئے، یہ ادبی اقتباسات علامہ اقبال اور علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہما کی حیات اور ان کے فقید المثال کارناموں کی مختلف جہتوں سے پردہ اٹھانے والے تھے۔ محمد حسان عمر (ممبر: اللقاء الثقافی، لکھنؤ) نے تاریخ ندوۃ العلماء حصہ دوم سے میدان علم وتحقیق کی نابغۂ روزگار شخصیت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے دور آخر کے نمایاں کارناموں کی پیشکش سے شرکاء نشست میں ایک نئی روح پھونک دی، سید صاحب نے آخری دس سال میں دینی مدارس اور جامعات کو نئے حادثات و واقعات کے مطابق سرگرم عمل ہونے اور اپنے اندر ایسی تبدیلیاں پیدا کرنے کی دعوت دی، جن کے ذریعے وہ عصری تقاضوں کو پورا کرسکیں. مزید فرمایا کہ سیاست و حکومت سے قبل ایمان و عمل کے ذریعے اپنے اندر قائدانہ صلاحیت، تنظیم و اجتماعیت، اقتصادی و اخلاقی برتری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ 

عبد القادر محبوب ( سکریٹری : اللقاء الثقافی لکھنؤ) نے اپنے انگریزی انتخاب بعنوان ' What are Rights of parents ' پیش کیا، جس میں انھوں نے کہا کہ " شریعت اسلامی میں والدین کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے، حدیث پاک میں بھی اس کی تفصیل ملتی ہے اور خود قرآن مجید اس کی مؤید ہے، والدین کے مقام کو و مرتبہ کو پہچاننا چاہیے اور ان کو راضی کر جنت کا مستحق ہونا چاہیے"۔ مرزا ریحان بیگ (سکریٹری: اللقاء الثقافی، لکھنؤ) نے "الفتوحات في عهد عمر بن الخطاب رضي الله عنه" کے عنوان پر اپنی تخلیق پیش کی، جو دار العلوم ندوۃ العلماء کے کلیۃ اللغۃ العربیۃ و آدابہا کی جانب سے منعقد انعامی عربی مضمون نویسی کے لئے لکھا گیا ہے۔ موصوف نے حضرت عمر کی عبقری شخصیت پر نظر ڈالتے ہوئے کہا کہ: "حضرت عمر کی شخصیت تمام سلاطین عالم میں ممتاز ہے۔ یہ تاریخ کا سب سے بڑا اعجاز ہے کہ ایک شخص نے صرف دس سال کی مدت میں ایک وسیع وعریض مملکت قائم کردی۔ وہ بھی ہرقسم کے ملکی انتظامات مثلاً تقسیم صوبہ جات واضلاع، انتظام محاصل، صیغۂ عدالت، فوجداری اور پولیس پبلک ورکس، تعلیمات، صیغۂ فوج۔ آپ کی شخصیت کو بیان کرتے ہوئے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے تھے: كَانَ إِسْلَامُهُ فَتْحَاً، وهِجَرَتُهُ نَصْراً وإِمَارَتُهُ رَحْمَةً (عمرؓ کا قبول اسلام ہماری فتح مبین تھی اور ہجرت نصرت خداوندی تھی اور خلافت سراپا رحمت تھی) "۔ 

وقار احمد ندوی ( رفیق علمی : دار البحث والاعلام، لکھنؤ) نے اپنی تخلیق بعنوان :" آئینہ تاریخ؛ تعارف و تبصرہ " سامعین کی خدمت میں پیش کی، قابل ذکر بات یہ ہے کہ "آئینۂ تاریخ" ہندوستان کے مشہور اسلامی اسکالر افضل حسین رحمتہ اللہ علیہ کی ایک اہم تالیف ہے، افضل حسین کی پیدائش 1/فروری 1918ء اور وفات 1/جنوری 1990ء میں ہوئی، آپ ایک ماہر تعلیم اور با کمال مدرس تھے، انھوں نے اپنے تدریسی تجربات کی روشنی میں ایک معیاری نصاب تیار کیا تھا، ٫٫آئینہ تاریخ ،، بھی نصابی سلسلہ تصنیف میں ایک شاہکار ہے، اس کتاب میں مختلف قوموں، شخصیتوں، اداروں اور جماعتوں کی تاریخ مذکور ہے، اس کا اسلوب نہایت سادہ اور سلیس ہے، مؤلف رحمۃ اللّٰہ نے اس میں مکمل عدل سے کام لیا ہے، مختصر یہ کہ افضل حسین رحمتہ اللہ علیہ نے اس میں ہندوستان کی تاریخ کو آسان مختصر اور جامع بنا کر پیش کیا ہے۔ بلا شبہ طلبہ و طالبات اور شائقین علم و ادب کے لئے " آئینہ تاریخ " ( اول، دوم) یکساں طور پر ایک مفید ہے۔

محمد ارمان دلکش (ممبر: اللقاء الثقافی، لکھنؤ) نے احمد بن عمر بن علی بن نظامی عروضی سمرقندی (1110-1161) کی مشہور تاریخی تصنیف "چہارنامہ" پر اپنا وقیع علمی تبصرہ پیش کیا۔ اس کتاب کا مقدمہ یونانی فلسفہ کا ملخص ہے۔ جس میں نہایت اختصار کے ساتھ الہیات، طبیعیات کے مسائل بیان کئے گئے ہیں۔ یہ کتاب اپنے طرز بیان اور خوبئ زبان کی وجہ سے آٹھ صدیوں تک زندہ رہی اور غالباً اپنے دلکش اسلوب اور تاریخی حیثیت کی بناء پر اور بھی کئی صدیوں تک زندہ رہے گی۔ محمد مرغوب الرحمٰن ندوی (جنرل سیکریٹری: اللقاء الثقافی، لکھنؤ نے "الجمعۃ و مکانتہا في الشریعۃ الإسلامیۃ" کی تیرہویں قسط پیش کی، جس میں "الخلو من الأعذار" کا ذکر کیا۔ شیخ عبداللہ (ممبر: اللقاء الثقافی، لکھنؤ) نے اپنے اس عربی مقالہ کی تلخیص پیش کی جسے دو ہفتے قبل "دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ" میں "النادی العرپی" کی شہریہ بزم میں بعنوان: " خصائص حضارتنا" پیش کیا تھا اور ماشاءاللہ اول پوزیشن بھی حاصل کی تھی۔

دوران نشست برادرم شیخ عبداللہ( ممبر: اللقاء الثقافی، لکھنؤ) اور حسان عمر ( ممبر: اللقاء الثقافی، لکھنؤ) کو میاں صاحب اسلامیہ انٹر کالج، گورکھپور میں منعقد صوبائی سطح کے مقابلہ میں اول مقام حاصل کرنے کے اعزاز اور جہد مسلسل کے اعتراف میں اللقاء الثقافی، لکھنؤ کی جانب سے بدست مشفق ومربی استاد گرامی قدر مولانا مسعود عالم ندوی زید مجدہ انعام میں دو دو کتابیں (1) قرآنی شخصیات از مولانا عبدالماجد دریابادی، (2) ہندوستان کے موجودہ حالات مسائل اور حل از مولانا سید جلال الدین عمری اور دار البحث و الاعلام، لکھنؤ کے لفافہ میں ملفوف مبلغ =/50 روپے نقد سے نوازا گیا۔ واضح رہے کہ حسان عمر نے زمرۂ قرأت مع ترجمہ میں اور برادر شیخ عبداللہ نے زمرۂ خطابت میں اول مقام حاصل کیا تھا۔

نشست کی صدارت کرتے ہوئے مولانا مسعود عالم ندوی ( ڈائریکٹر: دار البحث والاعلام، لکھنؤ) نے سب سے پہلے انعام یافتگان اور اللقاء الثقافی، لکھنؤ کے ممتاز مقالہ نگاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ خورد نوازی، اعتراف اور حوصلہ افزائی کی ثقافت سے افراد اور ادارے ترقی کرتے ہیں۔ مزید اللقاء الثقافی، لکھنؤ کے سالانہ تقریب تقسیم انعامات کا خصوصیت سے ذکر کرتے ہوئے تلقین کی کہ طلبہ اپنی علمی، فکری، درسی اور مطالعاتی فعالیت میں اضافہ کریں، کیوں کہ سالانہ انعامی تقریب تقسیم انعامات میں تعلیمی تفوق، تنظیمی فعالیت، مطالعاتی اور درسی پروجیکٹ کی تکمیل دیکھی جاتی ہے اور اسی کے بقدر حوصلہ افزا سرٹیفکیٹ، میڈل، ڈائری، قلم اور کتابوں پر مشتمل فائل کے علاوہ نقد انعامات سے نوازا جاتا ہے، مولانا نے اس حوالے سے طلبہ سے مشورے کئے اور کہا کہ ان شاءاللہ جلد ہی حتمی تاریخ کا اعلان کردیا جائے گا۔

نور القمر ندوی (معاون جنرل سکریٹری: اللقاء الثقافی، لکھنؤ) نے 9/ دسمبر 2022ء کو منعقد نشست کی مفصل روداد سامعین کی خدمت میں پیش کی، واضح رہے کہ اس علمی، ادبی، فکری، تصویری، ابلاغی اور تربیتی نشست کی نظامت شمیم اختر (سیکریٹری: اللقاء الثقافی، لکھنؤ) نے کی، سوالات و جوابات اور تأثرات و تصحیح کا دورانیہ بھی دلچسپ رہا، جس سے شرکاء نے خوب استفادہ کیا۔ 

دعائے ماثورہ اور کلمات تشکر کے ساتھ نشست کا اختتام ہوا۔

بقلم: 
محمد شہنواز  
(سکریٹری: اللقاء الثقافی،لکھنؤ)
عبد القادر محبوب  
(سکریٹری: اللقاء الثقافی، لکھنؤ)
16/12/2022
#Selection, Collection, Creation.


what's the hurry! I just getting started 🙂

تبصرے

مشہور اشاعتیں