پت جھڑ کا موسم
موسم خزاں کی آمد کے ساتھ ہی دنیا بھر میں درختوں نے سبز رنگ کا لبادہ اتار کر زرد نارنجی سُرمئی اور سرخ رنگوں کا لبادہ اوڑھ لیا ہے، ہر سمت بکھرے ہوۓ سرخ زرد پتے جہاں منظر کو حسین بنا رہے ہیں تو وہیں ماحول کو افسردہ بھی کر رہے ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سردیوں کے موسم میں پیڑوں میں (فوٹوسینتھیسز) کے لئے روشنی اور پانی کم ہونےکی وجہ سے یہ تبدیلی رونما ہوتی ہے، سردیوں میں درخت اور پودے اسی خوراک کا استعمال کرتے ہیں، جسے گرمیوں میں جمع کر لیتے ہیں لہذا خوراک کی مکمل مقدار نہ مل پانے کی وجہ سے پیڑوں میں کلوروفل غایب ہونا شروع ہو جاتا ہے, کلوروفل ایسا مادہ ہے جس کی وجہ سے درختوں اور پودوں میں سبز رنگ آتا ہے اور جب یہی کلوروفل نامی کیمکل ختم ہونے لگتا ہے تو ہم انہی سبز پتوں کو زرد، بھورے، سنہرے، سرمئی اور نارنجی رنگوں میں تبدیل ہوتا دیکھتے ہیں، خیر یہ تو پتوں کے تبدیل ہونے کا معاملہ ہے، سائنس دان اس بارے میں کچھ بھی کہیں لیکن موسمِ خزاں خدا کے بندوں کو کئی سارے سندیسے دے کر جاتا
خزاں میں شاخ سے گرتے اداس پتوں نے
مُجھے یہ درس دیا ہے زوال سب کو ہے
جی ہاں موسم خزاں ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ خدا کے سوا ہر شے کو زوال ہے، ہر ابھرتے سورج کی منزل اسکا ڈوب جانا ہے، مضبوط ترین وجودوں کو ڈھل کر خاک ہی بننا ہے، حسین ترین صورتوں کی سانسوں کے نادیدہ دروازے کو گھڑی کی دیمک چاٹ کر ہی رہے گی، گرتے پتوں کو دیکھ کر جب ذہن قرآن کریم کی اس آیت کی طرف جاتا ہے ( " اور جو پتہ زمین پر گرتا ہے اللّٰه اس سے بھی با خبر ہے۔ سورہ انعام ") تو بدن کانپ سا جاتا ہے کہ " وہ خدا جو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے جو پیڑوں سے گرنے والے ہر ہر پتے کا علم رکھتا ہے"، ہم اس سے کس طرح اپنی نیتوں کا حال چُھپا سکتے ہیں ہم اپنی عیاریوں اور چالاکیوں سے تو لوگوں کو بے وقوف بنا سکتے ہیں پر اس با خبر سے کیسے حالِ دِل بچا سکتے ہیں، بار بار خدا کی نشانیوں میں غور و فکر کرنے کو اسی لئے کہا گیا ہے جسمیں ذرا سا دھیان لگانے والوں کے لئے بہت کچھ ہے۔
پھر ساتھ ہی خزاں کا موسم جاتے جاتے امیدوں کی لو کو روشن کر کے جاتا ہے اور یہ سندیسہ دے جاتا ہے کہ ہر خزاں کے بعد بہار بھی ہوتی ہے، رات جب ایک خورشید کو شہید کرتی ہے تو صبح ایک نیا سورج تراش کے بھی لاتی ہے، درختوں سے جدا ہوتے پتے خوابیدہ کونپلوں کو جگا کر ہی رُخصت ہوتے ہیں، آزمائشوں کے بعد ہی نُصرت اور تنگی کے بعد ہی راحت ہے، یہی قانون قدرت ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں