تاج المساجد: ایک مشاہدہ
حسان عمر
مسجدیں تو بہت دیکھیں پر تجھ سی نہیں، واقعی تو تاج المساجد ہے! متعدد خارجی دروازے، مختلف راستے اور جدا جدا مسجد کے داخلی دروازے، کیا ہی عالیشان منارے اور گنبد،پانچ پانچ حوض اس طور پر کہ ایک مرکزی ہے تو چار فروعی،مستورات کے لیے اوپر کا حصہ الگ، کیا ہی وسعت وکشادگی اور کیا ہی خوبصورتی ورعنائی،یقینا یہ وہ چیزیں ہیں جو اس مسجد کی عظمت و شہرت اور اس کی قدامت وتاریخیت کی بین دلیل اور شاہد عدل ہیں،قریب سے دیکھیے تو گویا دہلی کی جامع مسجد یاد آنے لگے اور ذہن و دماغ بار بار یہی کہیں کہ یقینا دونوں مسجدیں یکساں ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں ۔
یہ تاریخی مسجد اپنے مسجد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دارالعلوم کا بھی احاطہ کرتی ہے، جس کا نام دارالعلوم تاج المساجد ہے اور جو دارالعلوم ندوۃ العلماء کی اول واکبر شاخ کہلاتی ہے، تاج المساجد پتھر کے طرز پر بنی دنیا کی دوسری بڑی مسجد ہے، اس کی جمالیات اور اس میں کی جانے والی دقیق صنعت و کاریگری پر ایک نظر ڈالیں تو آنکھیں خیرہ ہو جائیں اور اس کی عظمت تسلیم کرنے کےسوا کوئی چارہ نہ ہو، بڑا سا دالان اور اس دالان میں نہایت صاف و شفاف حوض جگہ جگہ سنگ مرمر کی تختیاں اور ہر تختی پر کوئی نہ کوئی تاریخ یا کسی نہ کسی اہم شخصیت کا نام ضرور دیکھنے میں آئے گا۔
تاج المساجد حقیقی معنوں میں بے پایاں خوبصورتی اور نقاشی کا لازوال مظہر ہے، یہ مسجد دارالعلوم بھی ہے تو درس گاہ بھی، دارالاقامہ بھی ہے تو دفاتر کا مجموعہ بھی، مہمان خانہ بھی اور زیارت گاہ بھی ہے، مسجد کے شمالی دروازے پر بعض سنگ مرمر کی تختیاں لگی ہوئی ہیں جو مسجد کی بنیادی، تکمیلی اور اور افتتاحی تاریخوں سے مزین ہیں۔اسی مسجد کے شمالی جانب موتیا تالاب واقع ہے، جس کے بارے میں مشائخ بھوپال کا کہنا ہے کہ ’’تاج المساجد کی بقیہ تعمیر کی تکمیل تک اگر بیگم شاہ جہاں صاحبہ باحیات ہوتیں تو یہ تالاب مسجد کا حوض بنا دیا جاتا، لیکن اس سے قبل ہی وہ اپنے رب حقیقی سے جا ملیں إنا لله وإنا إليه راجعون.‘
اس مسجد کی عظمت و رفعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جمعہ کے دن ایک جم غفیر ہوتا ہے، دور دراز سے لوگ یہاں نماز پڑھنے آتے ہیں، یہ منظر بہت ہی دلکش ہوتا ہے، جوق در جوق باوضو قافلے، خوشبو میں بسا ہوا وجود، ایک دوسرے کا خیال کرتے ہوئے ہوئے دھیرے دھیرے آگے کو رواں دواں، زبان پر تکبیر وتہلیل کا ترانہ اور تسبیحات کا نغمہ اسلامی تہذیب کا روح پرور جلوہ دیکھتے اور شکر ادا کرتے جائیے! محفل نکاح کا تو کیا کہنا اس کا اندازہ ہی یہاں منفرد ہے، جمعہ کے دن تو یہ منظر ہوتا ہے کہ بیسیوں نکاح ہو رہے ہوتے ہیں اور ہوتا یہ ہے کہ نکاح پڑھانے والے قاضیوں کی ہی کمی ہو جاتی ہے اور لوگ انتظار کر رہے ہوتے ہیں، اس مسجد کا بلند وبالا مشرقی (مرکزی) دروازہ شیخہ مریم کے نام سے موسوم ہے، جو کے قطر کے سابق حاکم کی زوجہ ہیں، اسی دارالعلوم تاج المساجد کے بعض اساتذہ ایسے ہیں جنہوں نے خود ابتدائی تعلیم یہاں سے حاصل کی اور بعض تو وہ ہیں جنہوں نے مکمل عالمیت کی اور یہیں مسند تدریس پر فائز ہوئے، واضح رہے کہ دارالعلوم تاج المساجد کے تعلیمی درجات کا سلسلہ عالیہ رابعہ تک ہے، اس مسجد کی بنیاد ۱۸۷۱ء میں رکھی گئی تھی، ۱۹۷۱ء تک دالان کے آدھے حصہ مشرقی اور بلند و بالا مناروں کی تکمیل نہیں ہوئی تھی اور منارے مسجد کی اصل عمارت تک ہی محدود تھے، لیکن پھر اس کی تکمیل کا کام شروع ہوا اور الحمدللہ آج ہم اس مسجد کو اتنا حسین و دل فریب اور پر شکوہ دیکھ رہے ہیں اور بے ساختہ یہ اب زبان پر ہے في بيوت أذن الله أن ترفع ويذکر فيھا اسمه يسبح لہ فيھا بالغدو والآصال.
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں